Sunday, 13 September 2015

بلاول بھٹو زرداری کی لاہور میں چھلانگ مار انٹری


 بلاول بھٹو زرداری کی لاہور میں چھلانگ مار انٹری 

 پیپلز پارٹی، بلاول بھٹو یا آصف زرداری فیصلے کا وقت 


بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں آج پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور کسان کنونشن سے ایک پُرجوش خطاب کیا انہوں نے اپنے خطاب میں ن لیگ کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے ہوئے کہا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے اور پیپلز پارٹی احتساب چاہتی ہے لیکن احتساب سب کا ہونا چاہیئے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ جن لوگوں نے چھ مہینے میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا اور کہا کہ چھ ماہ میں لوڈ شیدنگ ختم نہ ہوئی تو ان کا نام بدل دیا جائے تو وہ اب بتائیں کہ اب ان کا میں کیا نام رکھوں وہ بتا ئیں نندی پور منصوبے کا کیا ہوا اب وہ کہاں ہے بجلی سے اب بھی عوام محروم ہیں۔ انہوں نے کہا پی آئی اے کیا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، سٹیل ملز کے ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں، لاہور کودہشت گردوں کے یاروں کے حوالے کر دیا گیا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، پنجاب پر مسلط لوگ کسی عذاب سے کم نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا نیب کہاں ہےٹانگیں کیوں کانپ رہی ہیں اسے پنجاب کیوں نظر نہیں آتا اسے ن لیگ کی کرپشن کیوں نظر نہیں آتی کیا ن لیگ والے پاک صاف ہیں انہوں نے کہا کہ ہماری فوج ایک طرف ضرب عضب میں دیشت گردوں سے لڑ رہی ہے اور اپنی جانیں قربان کررہی ہے اور ملک کو دہشت گردی سے نجات دلا رہی ہے لیکن ہمارے حکمران ہیں جو معیشت کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں 
بلاول بھٹو نے کہا کہ حکمران نہ تو خادم ہیں اور نہ ہی اعلیٰ انہوں نے اس کسان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسان دن رات محنت کر کے جو کچھ کماتے ہیں وہ ن لیگ والے لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ اگرآپ کسانوں کو اُن کا حق نہیں دے سکتے تو آپ کو حکمرانی کا کوئی حق نہیں ہے، حکومت کی پالیسی عوام دشمن اور کسان دشمن ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسان اپنےآلو سڑک پر پھینکنے پر مجبور ہیں، کیونکہ حکومت نے کسانوں سے اُن کا حق چھین لیا ہے۔ کسانوں کو اُن کا حق ملنا چاہیے۔ عوام کا برا حال ہے اور میاں صاحب ہمیں میٹرو دکھا رہے ہیں 
بلاول بھٹو نے کہا کہ لاہور میں پنجاب کے جیالوں سے خطاب پر خوشی ہے، داتا کی نگری لاہور زندہ دلوں اور جمہوریت پسندوں کا شہر ہے، لاہور کو رجعت پسندوں اور دہشت گردوں کے یاروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ وقت بدل گیا ہے حکمرانوں اپنی سمت بدل لو! بے نظیر بھٹو عوام کی لیڈر تھیں، قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے اپنی شہادت دی اور پیپلز پارٹی شہیدوں کی پارٹی ہے اور اس کی جڑیں عوام  میں ہیں اس کو سازشوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا. بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب کے بعد اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا سا عوامی انداز اپنایا  اور کارکنوں میں گھلنے ملنے کے لئے سٹیج سے چھلانگ لگائی اور کارکنوں میں گھل مل گئے اُن کے اس انداز کو پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں بہت پسند کیا گیا اور کارکنوں نے پرجوش نعرے لگائے۔

بلاول بھٹو زرداری نے اپنے خطاب میں اگرچہ پنجاب میں پیپلز پارٹی میں ایک نئی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے کا کہ وہ کس طرح پیپلز پارٹی میں شامل اُن لوگوں سے خود کو دُور رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کے اکثر لوگ مایوس ہو کر پی ٹی آئی کی طرف پرواز کر گئے ہیں مبصرین کا یہ خیال ہے کہ اگر بلاول بھٹو زرداری اپنے والد آصف علی زرداری کے اثر سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور پیپلز پارٹی میں موجود مفاد پرست اور کرپٹ عناصر سے نجات پانے میں کامیاب ہو گئے تو پیپلز پارٹی ایک بار پھر عوام میں پذیرائی حاصل کرسکتی ہے بلاول بھٹو زرداری کے اس وقت بہت سے پیپلز پارٹی کے مخلص اور نظریاتی لوگوں سے مسلسل رابطے ہیں اور مستقبل میں عمران خان اور پیپلز پارٹی میں اتحاد کا بھی واضع امکان موجود ہے کیونکہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو پردہ سکرین پر بظاہر نظر آتی ہیں لیکن کیونکہ بلاول کے ساتھ ابھی کچھ ایسے لوگ ضرور نظر آئے ہیں جن پر کچھ مبصرین کو اعتراض ہے لیکن ہو سکتا ہے جلد ہی لوگوں کو بلاول بھٹو کے ساتھ لوگوں کو پیپلز پارٹی 
کے مخلص اور نظریاتی لوگ نظر آئیں کیوں پردہ سکرین کے پیچھے بہت سی چیزیں ہیں جو شاید اس وقت لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوں اس سلسلے میں دبئی میں ہونے والی پیپلز پارٹی کی میٹنگ بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ میٹنگ ہو سکتا ہے کہ وہ بلاول کے سیاسی راستے کا تعین کرے اگر بلاول اپنا علحیدہ راستہ منتخب کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہوئی نظر آئیں گیاگرچہ یہ ایک انتہائی مشکل اور صبر آزما کام ہے لیکن کیونکہ بلاول کو جو سب سے بڑا ایڈوانٹج ہے وہ یہ ہے کہ بلاول پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہےاسی طرح ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو پر کسی بھی قسم کی کرپشن کو کوئی الزام نہیں تھا ان کی والدہ بے نظیر بھٹو کو بھی آصف زرداری کی وجہ سے کرپشن کے الزامات کا سامنا رہا ورنہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جان جمہوریت کی راہ میں قربان کی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی اور پیپلز پارٹی کہ مخلص اور نظریاتی کارکن یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی کو کرپٹ لوگوں سے پاک کر دیا جائے تو پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی قیادت میں دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ کچھ نادیدہ ہاتھ بھی یہی چاہتے ہوں لیکن فیصلہ بلاول کو کرنا ہے کہ وہ کون سا راستہ اپناتے ہیں۔ وہ اپنے والد آصف علی زرداری کی راہ پر چلتے ہیں یا اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی عوامی راہ کو اپناتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ کیا ہوگا۔ لیکن سکرین کے پیچھے بہت کچھ ہورہا ہو گا یا ہورہا ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ سب انتظار کرہے ہیں آپ بھی انتظار کیجیئے سیاست  کے تھیلے سے کیا برآمد ہوتا ہے


اگر کسی کو میری کسی بات  سے کوئی اختلاف ہے تو وہ اختلاف رکھ سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں دوسروں سے اختلاف رکھ سکوں 



سید محمد تحسین عابدی





Tuesday, 8 September 2015

بلاول بھٹو


 بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی مستقبل 


بلاول بھٹو زرداری کا پاکستان میں سیاسی مستقبل کیا ہو گا یہ سیاسی مبصرین کے لئے ایک انتہائی دلچسپ موضوع ہے کیونکہ ایک طرف آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات کی وجہ سے پیپلز پارٹی شدید مشکلات میں گھری ہوئی نظرآرہی  ہے  اورآصف علی زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والی تقریر کے بعد اور ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنی توپوں کا رخ اچانک حکومت کی طرف موڑ دیا اور حکومت کو شدید نتقید کا نشانہ بنایا گیا اور سندھ پر حملے اور آصف زرداری کی گرفتاری کی صورت میں جنگ کی باتیں کی گئیں دراصل حقیقت یہ نظرآتی ہے کہ نتقید کا ہدف حکومت کو بنایا گیا لیکن اس تنقید کی آڑ میں پیغام کسی اور کو پہنچایا گیا اور سنایا گیا۔ 
ادھر ایک طرف تو یہ ساری صورتحال سامنے آتی رہی اوردوسری طرف بلاول بھٹو زراداری اپنا سیاسی لائحہ عمل بناتے رہے کیونکہ وہ اس بار جب وہ وطن واپس آئے تھے تو انہوں نے کافی سوچ بچار کی تھی وطن واپسی سے پہلے اُن کا کچھ اہم شخصیات سے بھی رابطہ ہوا تھا انہوں نے پاکستان واپسی سے پہلے پاکستان اور خصوصا پنجاب میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور جیالوں میں پائی جانے والی بددلی کا بھی جائزہ لیا تھا اور انہیں پیپلز پارٹی کے گرتے ہوئے گراف کی جو وجوہات نظرآئیں اُن میں ایک بڑی وجہ بیڈ گورننس اور دوسری بڑی اور اہم ترین وجہ پیپلز پارٹی کے کچھ لیڈروں پر کرپشن کے الزامات تھے اس ساری صورتحال میں بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سیاسی مسقبل کو محفوظ کرنے کے لئے اس ساری سیاسی گرما گرمی میں انتہائی محتاط رویہ اپنایا اور کوئی ایسی بات نہیں کی جس کی وجہ سے کوئی تلخی پیدا ہوتی بلکہ بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے اُن لوگوں کے غیرمحسوس طور پر قریب ہونے لگے جن پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں ۔
بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی مستقبل کے لئے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اُن پر کرپشن کا کسی قسم کا کوئی الزام نہیں ہے اور پیپلز پارٹی کے کچھ بہت ہی اہم سیاسی رہنما جن پر کرپشن کے الزام نہیں ہیں وہ بھی خلوص نیت سے یہ چاہتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری خود کو کرپشن زدہ لوگوں سے علحیدہ کریں اور دوبارہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے عوامی راستے کو اپنایا جائے اس کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں کے بیانات ہیں جس میں انہوں نے یہ کہا کہ پیپلز پارٹی پر دہشت گردی کا الزام لگانا غلط ہے اور اگر کسی پر کرپشن کا چارج ہے تو وہ عدالت کا سامنا کرے اس بیان سے بلاول بھٹو زرداری کا آئندہ کا لائحہ عمل نظر آرہا ہے  اور بلاول بھٹو زرداری نے اس سلسلے میں اپنی ملاقاتیں اور بلدیاتی الیکشن میں حکمت عملی بھی ترتیب دینی شروع کردی ہے۔ کیونکہ اگر پیپلز پارٹی خود کو اُن افراد سے علحیدہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے جن پر کرپشن کے الزمات ہیں اور بلاول بھٹو زرداری اپنا سیاسی راستہ خود منتخب کرتے ہیں تو اُن کا پی ٹی آئی سے سیاسی اتحاد ہوسکتا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے ممبران کے استعفوں پر دونوں پارٹیوں کا ایک ہی نکتہ نظر ہے۔ لیکن اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری خود کو کتنی جلدی خود کو آصف زرداری کے اثر ر رسوخ سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور پیپلز پارٹی اُن لوگوں سے کس طرح نجات حاصل کرتی ہے جن پر کرپشن کے الزمات ہیں۔ اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری کے اپنے کچھ اہم رشتہ داروں اور کچھ پارٹی کے اہم سیاسی رہنمائوں سے بھی رابطے ہیں لوگ گزشتہ دنوں عدالت میں بے نظیر بھٹو کے ڈرائیور کے بیان کو نظر انداز کر رہے ہیں جو کہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس بیان کی ٹائمنگ بھی کافی اہم ہے۔ لوگوں میں بے نظیر بھٹو کے قتل اوراُن کے قاتلوں کے بارے میں چہ مگوئیاں ہوتی ہیں ٹی وی ٹاک شوز میں روز اس پر تبصرے ہوتے ہیں، عزیر بلوچ اور خالد شہنشاہ کا ذکر ٹی وی ٹاک شوز میں  ہوتا ہے تو کیا بلاول بھٹو زرداری جو ایک ذہین نوجوان ہیں انہوں نے کوشش نہیں کی ہوگی یہ تحقیق کرنے کی کہ اُن کی والدہ کے قاتل کون ہے اور اس قتل کے پیچھے کون سے حقائق ہیں انُ   کی آنکھوں نے بھی بہت کچھ دیکھا ہوگا اور اُن کے کانوں نے بھی بہت کچھ سنا ہوگا۔ انہوں نے بھی اپنی والدہ کو شہید کرنے والوں کے قدموں کے نشانات ضرور تلاش کرنے کوشش کی ہوگی۔ کچھ لوگ اُن کے سامنے کچھ حقائق بھی لائے ہوں گے۔ اُن کی بھی شدید خواہش ہوگی کہ اُن کی والدہ کے قاتلوں کو سزا ملے ۔
 وہ اپنا سیاسی لائحہ عمل طے کررہے ہیں اورخارزار سیاست میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں اگر بلاول بھٹو زرداری نے اپنا راستہ خود بنایا اور کرپشن کے راستے سے خود کو پاک رکھا تو پاکستان کی سیاست میں اُن کو پذیرائی ملے گی کیونکہ پیپلز پارٹی کے جیالے اُن میں بے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا عکس دیکھتے ہیں اس لئے بلاول بھٹو زراداری کو اپنا سیاسی راستہ خود چُننا ہوگا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا وقت ثابت گرے گا کہ بلاول بھٹوزرداری کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا ۔انتظار کیجیئے


اگر کسی کو میری کسی بات  سے کوئی اختلاف ہے تو وہ اختلاف رکھ سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں دوسروں سے اختلاف رکھ سکوں 



سید محمد تحسین عابدی