بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی مستقبل
بلاول بھٹو زرداری کا پاکستان میں سیاسی مستقبل کیا ہو گا یہ سیاسی مبصرین کے لئے ایک انتہائی دلچسپ موضوع ہے کیونکہ ایک طرف آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات کی وجہ سے پیپلز پارٹی شدید مشکلات میں گھری ہوئی نظرآرہی ہے اورآصف علی زرداری کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والی تقریر کے بعد اور ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنی توپوں کا رخ اچانک حکومت کی طرف موڑ دیا اور حکومت کو شدید نتقید کا نشانہ بنایا گیا اور سندھ پر حملے اور آصف زرداری کی گرفتاری کی صورت میں جنگ کی باتیں کی گئیں دراصل حقیقت یہ نظرآتی ہے کہ نتقید کا ہدف حکومت کو بنایا گیا لیکن اس تنقید کی آڑ میں پیغام کسی اور کو پہنچایا گیا اور سنایا گیا۔
ادھر ایک طرف تو یہ ساری صورتحال سامنے آتی رہی اوردوسری طرف بلاول بھٹو زراداری اپنا سیاسی لائحہ عمل بناتے رہے کیونکہ وہ اس بار جب وہ وطن واپس آئے تھے تو انہوں نے کافی سوچ بچار کی تھی وطن واپسی سے پہلے اُن کا کچھ اہم شخصیات سے بھی رابطہ ہوا تھا انہوں نے پاکستان واپسی سے پہلے پاکستان اور خصوصا پنجاب میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور جیالوں میں پائی جانے والی بددلی کا بھی جائزہ لیا تھا اور انہیں پیپلز پارٹی کے گرتے ہوئے گراف کی جو وجوہات نظرآئیں اُن میں ایک بڑی وجہ بیڈ گورننس اور دوسری بڑی اور اہم ترین وجہ پیپلز پارٹی کے کچھ لیڈروں پر کرپشن کے الزامات تھے اس ساری صورتحال میں بلاول بھٹو زرداری نے اپنے سیاسی مسقبل کو محفوظ کرنے کے لئے اس ساری سیاسی گرما گرمی میں انتہائی محتاط رویہ اپنایا اور کوئی ایسی بات نہیں کی جس کی وجہ سے کوئی تلخی پیدا ہوتی بلکہ بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کے اُن لوگوں کے غیرمحسوس طور پر قریب ہونے لگے جن پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں ۔
بلاول بھٹو زرداری کے سیاسی مستقبل کے لئے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اُن پر کرپشن کا کسی قسم کا کوئی الزام نہیں ہے اور پیپلز پارٹی کے کچھ بہت ہی اہم سیاسی رہنما جن پر کرپشن کے الزام نہیں ہیں وہ بھی خلوص نیت سے یہ چاہتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری خود کو کرپشن زدہ لوگوں سے علحیدہ کریں اور دوبارہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے عوامی راستے کو اپنایا جائے اس کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کے اہم رہنمائوں کے بیانات ہیں جس میں انہوں نے یہ کہا کہ پیپلز پارٹی پر دہشت گردی کا الزام لگانا غلط ہے اور اگر کسی پر کرپشن کا چارج ہے تو وہ عدالت کا سامنا کرے اس بیان سے بلاول بھٹو زرداری کا آئندہ کا لائحہ عمل نظر آرہا ہے اور بلاول بھٹو زرداری نے اس سلسلے میں اپنی ملاقاتیں اور بلدیاتی الیکشن میں حکمت عملی بھی ترتیب دینی شروع کردی ہے۔ کیونکہ اگر پیپلز پارٹی خود کو اُن افراد سے علحیدہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے جن پر کرپشن کے الزمات ہیں اور بلاول بھٹو زرداری اپنا سیاسی راستہ خود منتخب کرتے ہیں تو اُن کا پی ٹی آئی سے سیاسی اتحاد ہوسکتا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے ممبران کے استعفوں پر دونوں پارٹیوں کا ایک ہی نکتہ نظر ہے۔ لیکن اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری خود کو کتنی جلدی خود کو آصف زرداری کے اثر ر رسوخ سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور پیپلز پارٹی اُن لوگوں سے کس طرح نجات حاصل کرتی ہے جن پر کرپشن کے الزمات ہیں۔ اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری کے اپنے کچھ اہم رشتہ داروں اور کچھ پارٹی کے اہم سیاسی رہنمائوں سے بھی رابطے ہیں لوگ گزشتہ دنوں عدالت میں بے نظیر بھٹو کے ڈرائیور کے بیان کو نظر انداز کر رہے ہیں جو کہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس بیان کی ٹائمنگ بھی کافی اہم ہے۔ لوگوں میں بے نظیر بھٹو کے قتل اوراُن کے قاتلوں کے بارے میں چہ مگوئیاں ہوتی ہیں ٹی وی ٹاک شوز میں روز اس پر تبصرے ہوتے ہیں، عزیر بلوچ اور خالد شہنشاہ کا ذکر ٹی وی ٹاک شوز میں ہوتا ہے تو کیا بلاول بھٹو زرداری جو ایک ذہین نوجوان ہیں انہوں نے کوشش نہیں کی ہوگی یہ تحقیق کرنے کی کہ اُن کی والدہ کے قاتل کون ہے اور اس قتل کے پیچھے کون سے حقائق ہیں انُ کی آنکھوں نے بھی بہت کچھ دیکھا ہوگا اور اُن کے کانوں نے بھی بہت کچھ سنا ہوگا۔ انہوں نے بھی اپنی والدہ کو شہید کرنے والوں کے قدموں کے نشانات ضرور تلاش کرنے کوشش کی ہوگی۔ کچھ لوگ اُن کے سامنے کچھ حقائق بھی لائے ہوں گے۔ اُن کی بھی شدید خواہش ہوگی کہ اُن کی والدہ کے قاتلوں کو سزا ملے ۔
وہ اپنا سیاسی لائحہ عمل طے کررہے ہیں اورخارزار سیاست میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں اگر بلاول بھٹو زرداری نے اپنا راستہ خود بنایا اور کرپشن کے راستے سے خود کو پاک رکھا تو پاکستان کی سیاست میں اُن کو پذیرائی ملے گی کیونکہ پیپلز پارٹی کے جیالے اُن میں بے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا عکس دیکھتے ہیں اس لئے بلاول بھٹو زراداری کو اپنا سیاسی راستہ خود چُننا ہوگا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا وقت ثابت گرے گا کہ بلاول بھٹوزرداری کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا ۔انتظار کیجیئے
اگر کسی کو میری کسی بات سے کوئی اختلاف ہے تو وہ اختلاف رکھ سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں دوسروں سے اختلاف رکھ سکوں
سید محمد تحسین عابدی
No comments:
Post a Comment